فصل زمین بنجر ہوئی انصاف کی فصل جل چکی اوصاف کی پتے اصول کے کملائے ہوئے لگتے ہیں پھول حسن و اخلاق کی مرجھائے ہوئے لگتے ہیں زوال میں خوشبوئے اظہار بھی زوال میں خوشبوئے گفتار بھی پرندے آشیانوں میں شرمائے ہوئے لگتے ہیں نسل کی پہچان کے موسم نہیں آتے ہیں انسان کی امان کے موسم نہیں آتے ہیں تنزلی ہے رفتار میں اوڑھے ہوئے ترقی کے لبادے کو عدل و احسان کے موسم نہیں آتے ہیں ہر شجر پہ ہر شاخ پہ جنگ و عداوت کے پرندے ہیں